دشت سے میں جو اپنے گھر آیا
میرے دل میں خدا اتر آیا
جس کی قیمت نہ دے سکا کوئی
میرے حصے میں وہ گہر آیا
ساری دنیا ہے راہ پر میری
جب سے میں تیری راہ پر آیا
کتنے پتھر ہیں سامنے لیکن
بت گری کا کسے ہنر آیا
کس نے دنیا کو زندگی دے دی
موت کا دل بھی آج بھر آیا
پھر در و بام ہو گئے رنگیں
پھر لہو میرا موج پر آیا
غزل
دشت سے میں جو اپنے گھر آیا
مدحت الاختر