دشت و صحرا کی کہاں اب زندگانی چاہئے
اور اگر ایسا ہے تو ہونٹوں کو پانی چاہئے
سوچتا ہوں میرے دل تک کس طرح پہنچے کوئی
بے نشاں گھر کے لیے کچھ تو نشانی چاہئے
پتلیوں پر رقص کرنا ہی کمال فن نہیں
درد کے آنسو کو تو پیہم روانی چاہئے
اک سنہرا خواب میری نیند کو درکار ہے
خواب کو بھی نیند ہی کی پاسبانی چاہئے
رات گزری ہے حصار کرب میں اے مظہریؔ
شام اب دل کے لیے کوئی سہانی چاہئے
غزل
دشت و صحرا کی کہاں اب زندگانی چاہئے
کوثر مظہری