EN हिंदी
دشت و دریا کے یہ اس پار کہاں تک جاتی | شیح شیری
dasht-o-dariya ke ye us par kahan tak jati

غزل

دشت و دریا کے یہ اس پار کہاں تک جاتی

باقی احمد پوری

;

دشت و دریا کے یہ اس پار کہاں تک جاتی
گھر کی دیوار تھی دیوار کہاں تک جاتی

مٹ گئی حسرت دیدار بھی رفتہ رفتہ
ہجر میں حسرت دیدار کہاں تک جاتی

تھک گئے ہونٹ ترا نام بھی لیتے لیتے
ایک ہی لفظ کی تکرار کہاں تک جاتی

لاج رکھنا تھی مسیحائی کی ہم کو ورنہ
دیکھتے لذت آزار کہاں تک جاتی

راہبر اس کو سرابوں میں لیے پھرتے تھے
خلقت شہر تھی بیمار کہاں تک جاتی

ہر طرف حسن کے بازار لگے تھے باقیؔ
ہر طرف چشم خریدار کہاں تک جاتی