EN हिंदी
دشت میں یہ جاں فزا منظر کہاں سے آ گئے | شیح شیری
dasht mein ye jaan-fazan manzar kahan se aa gae

غزل

دشت میں یہ جاں فزا منظر کہاں سے آ گئے

سلیمان خمار

;

دشت میں یہ جاں فزا منظر کہاں سے آ گئے
اس بیاباں میں چمکتے گھر کہاں سے آ گئے

قریۂ جاں میں جھلستی دھوپ تھی چاروں طرف
سایا لے کر ابر کے لشکر کہاں سے آ گئے

وادیٔ تخئیل تو بے رنگ تھی اک عمر سے
گمشدہ یادوں کے یہ پیکر کہاں سے آ گئے

ڈھہ چکی تھیں جب تمنائیں سبھی کھنڈرات میں
شہر دل میں پھر یہ بام و در کہاں سے آ گئے

کس نے بخشی ہے انہیں پھر سے اڑانوں کی سکت
حوصلوں کو پھر سے بال و پر کہاں سے آ گئے

کل تلک چھایا ہوا تھا ماتم بے چہرگی
آج نیزوں پر اچانک سر کہاں سے آ گئے

دشمنوں میں تھے تو ہم پر پھول کی بارش ہوئی
دوستوں میں ہیں تو یہ پتھر کہاں سے آ گئے

کھا گیا تھا جب سمندر سیپیاں ساری خمارؔ
پھر تمہارے ہاتھ یہ گوہر کہاں سے آ گئے