دشت میں یہ جاں فزا منظر کہاں سے آ گئے
اس بیاباں میں چمکتے گھر کہاں سے آ گئے
قریۂ جاں میں جھلستی دھوپ تھی چاروں طرف
سایا لے کر ابر کے لشکر کہاں سے آ گئے
وادیٔ تخئیل تو بے رنگ تھی اک عمر سے
گمشدہ یادوں کے یہ پیکر کہاں سے آ گئے
ڈھہ چکی تھیں جب تمنائیں سبھی کھنڈرات میں
شہر دل میں پھر یہ بام و در کہاں سے آ گئے
کس نے بخشی ہے انہیں پھر سے اڑانوں کی سکت
حوصلوں کو پھر سے بال و پر کہاں سے آ گئے
کل تلک چھایا ہوا تھا ماتم بے چہرگی
آج نیزوں پر اچانک سر کہاں سے آ گئے
دشمنوں میں تھے تو ہم پر پھول کی بارش ہوئی
دوستوں میں ہیں تو یہ پتھر کہاں سے آ گئے
کھا گیا تھا جب سمندر سیپیاں ساری خمارؔ
پھر تمہارے ہاتھ یہ گوہر کہاں سے آ گئے

غزل
دشت میں یہ جاں فزا منظر کہاں سے آ گئے
سلیمان خمار