دشت میں پہلے وہ سمندر چمکاتا ہے
تب پھر سینے میں خنجر چمکاتا ہے
بھیڑ سے وہ کرتا ہے مجھے کچھ ایسے جدا
بر نیزے پر میرا سر چمکاتا ہے
بھید کھولتا ہے وہ یوں اپنے ہونے کا
ہر آنے والے کا گھر چمکاتا ہے
دیکھوں وہ کب کرتا ہے زنگ انا کافور
دیکھوں وہ کب میرا اندر چمکاتا ہے
ورنہ کیا مٹی کیا مٹی کی کایا
کچھ تو ہے جو وہ زمیں پر چمکاتا ہے
تارے سورج پھول سمندر چڑیا میں
وہ کیسے کیسے منظر چمکاتا ہے
وہ کب رہنے دیتا ہے مجھ کو اکیلا طورؔ
آنکھ اک نیلم سی شب بھر چمکاتا ہے

غزل
دشت میں پہلے وہ سمندر چمکاتا ہے
کرشن کمار طورؔ