دشت میں خاک اڑاتے ہیں دعا کرتے ہیں
ہم قلندر جہاں جاتے ہیں دعا کرتے ہیں
یار تو یار ہیں دشمن بھی سدا دور رہیں
عشق سے جان چھڑاتے ہیں دعا کرتے ہیں
یہ سلیقہ کہ محبت نے سکھایا ہے ہمیں
زخم ہنستے ہوئے کھاتے ہیں دعا کرتے ہیں
تیرا دل شاد رہے اور تو آباد رہے
ہم تجھے چھوڑ کے جاتے ہیں دعا کرتے ہیں
ہم کبھی دار و رسن پر کبھی زندانوں میں
جان کی بازی لگاتے ہیں دعا کرتے ہیں
غالب و میر سے نسبت کا شرف حاصل ہو
آؤ اب ہاتھ اٹھاتے ہیں دعا کرتے ہیں
غزل
دشت میں خاک اڑاتے ہیں دعا کرتے ہیں
ہاشم رضا جلالپوری