دشت میں گلشن میں ہر جا کی ہے تیری جستجو
اب کہاں لے جا رہا ہے اے فریب رنگ و بو
آپ اتنا تو بتا دیں کب کرم ہوگا حضور
کب مروت میں بدل جائے گی یہ نفرت کی خو
سادگئ دل پہ اپنی رشک آتا ہے مجھے
اک وفا نا آشنا سے ہے وفا کی آرزو
عشق کی منزل میں لاکھوں کارواں گم ہو گئے
رہرو راہ محبت کیا کریں گے جستجو
رہ گئے ہیں اب تو لے دے کر دل برباد میں
حسرت دیدار کا غم اور تیری آرزو
دے رہی ہے اپنے دامن کی ہوا باد سحر
تیری زلف عنبریں ہے اک جہان رنگ و بو
جب کبھی ساقی نے جعفرؔ اپنی نظریں پھیر لیں
میکدے میں پی لیا ہے میں نے ارماں کا لہو
غزل
دشت میں گلشن میں ہر جا کی ہے تیری جستجو
جعفر عباس صفوی