دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے
سر چھپانے کے لئے گھر بھی مجھے چاہیے ہے
تھوڑی تدبیر کی سوغات ہے مطلوب مجھے
اور تھوڑا سا مقدر بھی مجھے چاہیے ہے
تیرنے کے لئے دریا بھی ہے کافی لیکن
شوق کہتا ہے سمندر بھی مجھے چاہیے ہے
صرف دیواروں سے ہوتی نہیں گھر کی تکمیل
چھت بھی درکار ہے اور در بھی مجھے چاہیے ہے
گاہے فٹ پاتھ بچھا کر بھی میں سو جاؤں گا
گاہے اک مخملیں بستر بھی مجھے چاہیے ہے
تیری معصوم ادائی بھی سر آنکھوں پہ مگر
تجھ میں اک شوخ ستم گر بھی مجھے چاہیے ہے
چاہیے ہے کبھی ریلا بھی مجھے سردی کا
اور کبھی دھوپ کا لشکر بھی مجھے چاہیے ہے
استعارے بھی ضروری ہیں سخن میں لیکن
شعر میں صنعت پیکر بھی مجھے چاہیے ہے
گفتگو کس سے کریں بونوں کی بستی میں خمارؔ
بات کرنی ہے تو ہمسر بھی مجھے چاہیے ہے
غزل
دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے
سلیمان خمار