دشت کیا شے ہے جنوں کیا ہے دوانے کے لئے
شہر کیا کم ہے مجھے خاک اڑانے کے لئے
ہم نے کیا جانئے کیا سوچ کے گلشن چھوڑا
فصل گل دیر ہی کیا تھی ترے آنے کے لئے
میں سرائے کے نگہباں کی طرح تنہا ہوں
ہائے وہ لوگ کہ جو آئے تھے جانے کے لئے
ہم وہی سوختہ سامان ازل ہیں کہ جنہیں
زندگی دور تک آئی تھی منانے کے لئے
دل کی محراب کو درکار ہے اک شمع فقط
وہ جلانے کے لئے ہو کہ بجھانے کے لئے
تو مری یاد سے غافل نہ تری یاد سے میں
ایک در پردہ کشاکش ہے بھلانے کے لئے
ضبط پیہم کے نثار اے دل آزار طلب
شرط دامن بھی اٹھا اشک بہانے کے لئے
سن مجھے غور سے سن نغمۂ نا پیدا ہوں
کوئی آمادہ نہیں ساز اٹھانے کے لئے
حرف نا گفتہ کی روداد لیے پھرتے ہیں
پہلے کہتے تھے غزل ان کو سنانے کے لئے
دل کی دریوزہ گر حرف تسلی نہ رہا
ہم نے یہ رسم اٹھا دی ہے زمانے کے لئے
سانس روکے ہوئے پھرتا ہوں بھرے شہر میں شاذؔ
اس نے کیا راز دیا مجھ کو چھپانے کے لئے
غزل
دشت کیا شے ہے جنوں کیا ہے دوانے کے لئے
شاذ تمکنت