دشت کی ویرانیوں میں خیمہ زن ہوتا ہوا
مجھ میں ٹھہرا ہے کوئی بے پیرہن ہوتا ہوا
ایک پرچھائیں مرے قدموں میں بل کھاتی ہوئی
ایک سورج میرے ماتھے کی شکن ہوتا ہوا
ایک کشتی غرق میری آنکھ میں ہوتی ہوئی
اک سمندر میرے اندر موجزن ہوتا ہوا
جز ہمارے کون آخر دیکھتا اس کام کو
روح کے اندر کوئی کار بدن ہوتا ہوا
میرے سارے لفظ میری ذات میں کھوئے ہوئے
ذکر اس کا انجمن در انجمن ہوتا ہوا
غزل
دشت کی ویرانیوں میں خیمہ زن ہوتا ہوا
سالم سلیم