EN हिंदी
دشت کی دھوپ بھر گیا مجھ میں | شیح شیری
dasht ki dhup bhar gaya mujh mein

غزل

دشت کی دھوپ بھر گیا مجھ میں

سلیم محی الدین

;

دشت کی دھوپ بھر گیا مجھ میں
میرا سایہ بکھر گیا مجھ میں

نام ہو چاہے عکس ہو تیرا
اک جزیرہ ابھر گیا مجھ میں

پڑھ سکا جو ورق ورق نہ مجھے
وہ مکمل اتر گیا مجھ میں

اس کو گزرے گزر گئیں صدیاں
ایک لمحہ ٹھہر گیا مجھ میں

کس کو ڈھونڈوں کہاں کہاں ڈھونڈوں
خوشبوئیں کون بھر گیا مجھ میں

قید تنہائی سے نکالے وہی
جو مجھے قید کر گیا مجھ میں

کس کا ماتم کرے سلیمؔ کوئی
اجنبی تھا جو مر گیا مجھ میں