دشت کے خیمۂ دریا میں مکیں کوئی تھا
تشنگی تیرے تماشے میں کہیں کوئی تھا
زندگی جامۂ تسکین میں رخشندہ تھی
دور تک حلقۂ داماں میں نہیں کوئی تھا
کتنی راہوں کا سفر دیدۂ امعاں نے کیا
قابل دید سفر بار یہیں کوئی تھا
وقت سے منظر سفاک تراشا نہ گیا
دیدۂ تر میں ترے گوشہ نشیں کوئی تھا
شعلۂ فہم تہی دست بھی ہوتا کیسے
موج ادراک کی شہ رگ کے قریں کوئی تھا
قفل دروازۂ چاہت کا نہ کھولا تو نے
تیرے دربار میں دریوزہ جبیں کوئی تھا
قطرۂ خون کی تابش پہ شفق حیراں ہے
پھر ہتھیلی پہ لئے شمع یقیں کوئی تھا
دونوں عالم کو نکھارا ہے زمیں پر عامرؔ
آسماں پر تھا کوئی زیر زمیں کوئی تھا
غزل
دشت کے خیمۂ دریا میں مکیں کوئی تھا
عامر نظر