دشت امید میں خوابوں کا سفر کرنا تھا
تو کہ اک لمحۂ ناپید بسر کرنا تھا
ہم نے کیوں آپسی اضداد کے نکتے ڈھونڈے؟
ہم نے تو خود کو بہم شیر و شکر کرنا تھا
نقش بنتا ہی نہیں سنگ سماعت پہ کوئی
کند الفاظ کو پھر تیر و تبر کرنا تھا
ساعت درد کہ بے چہرہ و بے نام رہی
قطرۂ اشک کہ محفوظ گہر کرنا تھا
تشنگی ماہیٔ بے آب سی لکھ ہونٹوں پر
ورنہ یوں بوسۂ ساغر سے حذر کرنا تھا
مجھ پہ آیت نہ کوئی لفظ ہی اترا احمدؔ
میری مشکل کہ بیاں مجھ کو سفر کرنا تھا
غزل
دشت امید میں خوابوں کا سفر کرنا تھا
احمد شناس