دشت بلائے شوق میں خیمے لگائے ہیں
ابن زیاد وقت سے کہہ دو ہم آئے ہیں
اک کہکشاں ہی تنہا نہیں وجہ دل کشی
آنچل پہ تیرے ہم نے بھی موتی لٹائے ہیں
تہہ کر چکے بساط غم و فکر روزگار
تب خانقاہ عشق و محبت میں آئے ہیں
تم ہی نہیں علاج محبت سے بے نیاز
ہم نے بھی احتیاط کے پرزے اڑائے ہیں
لگتا یہی ہے نور کے رتھ پر سوار ہوں
آنکھوں نے تیری مجھ کو وہ رستے سجھائے ہیں
وحشت سرائے دہر میں بھی شاد کام ہیں
ثاقبؔ یہ لوگ کون سے جنگل سے آئے ہیں
غزل
دشت بلائے شوق میں خیمے لگائے ہیں
امیر حمزہ ثاقب