دروازوں پر دن بھر کی تھکن تحریر ہوئی
مرے شہر کی شب ہر چوکھٹ کی زنجیر ہوئی
سب دھوپ اتر گئی ٹوٹی ہوئی دیواروں سے
مگر ایک کرن میرے خوابوں میں اسیر ہوئی
مرا سونا گھر مرے سینے سے لگ کر روتا ہے
مرے بھائی تمہیں اس بار بہت تاخیر ہوئی
ہمیں رنج بہت تھا دشت کی بے امکانی کا
لو غیب سے پھر اک شکل ظہور پذیر ہوئی
کوئی حیرت میرے لہجے کی پہچان بنی
کوئی چاہت میرے لفظوں کی تاثیر ہوئی
اس درد کے قاتل منظر کو الزام نہ دو
یہ تو دیکھنے والی آنکھوں کی تقصیر ہوئی
کسی لشکر سے کہیں بہتا پانی رکتا ہے
کبھی جوئے رواں کسی ظالم کی جاگیر ہوئی
پھر لوح پہ لٹنے والے خزانے لکھے گئے
مجھے اب کے برس بھی دولت جاں تقدیر ہوئی
غزل
دروازوں پر دن بھر کی تھکن تحریر ہوئی
عرفانؔ صدیقی