ڈرتا رہتا ہوں ہم نشینوں میں
ایک پتھر ہوں آبگینوں میں
بات کرنا جنہیں نہیں آتی
آج وہ بھی ہیں نکتہ چینوں میں
جو بھنور کو سمجھتے ہیں ساحل
ایسے بھی لوگ ہیں سفینوں میں
محتسب گن لے انگلیوں ہی پر
چند ہی رند ہیں کمینوں میں
خضر گزرے تھے شہر سے اپنے
ہم بھی تھے ایک راہ بینوں میں
بیعت حق کی بات کیا کرتے
ہاتھ لرزاں تھے آستینوں میں
فیض شہر انیسؔ سے سالکؔ
شعر کہتے ہیں ان زمینوں میں
غزل
ڈرتا رہتا ہوں ہم نشینوں میں
سالک لکھنوی