EN हिंदी
ڈرتا ہوں زندگی کے وسیلے نہیں ملے | شیح شیری
Darta hun zindagi ke wasile nahin mile

غزل

ڈرتا ہوں زندگی کے وسیلے نہیں ملے

سید عارف

;

ڈرتا ہوں زندگی کے وسیلے نہیں ملے
آنکھوں کو اب کے خواب رنگیلے نہیں ملے

سورج کی پیاس تھی جو سمندر سکھا گئی
ہم کو رسیلے ہونٹ بھی گیلے نہیں ملے

بکھرا ہوا ملا ہے ہر اک فرد بھی وہاں
آباد تھے مگر وہ قبیلے نہیں ملے

اتنی سی بات پر ہمیں ناراض وہ ملا
لوٹے جو شہر سے تو سجیلے نہیں ملے

عارفؔ ہمارا دل جو بجھا بجھ کے رہ گیا
خاموش دو نین جو نشیلے نہیں ملے