ڈرتا ہوں عرض حال سے دھوکا نہ ہو کہیں
وہ روٹھ جائیں اور بھی ایسا نہ ہو کہیں
کب تک تلاش دل کی کروں اور کہاں کہاں
زلفوں میں دیکھ لیجئے الجھا نہ ہو کہیں
قاصد مرے مکاں کی طرف سے گیا جو آج
ہوتا ہے شک مجھے کہ بلایا نہ ہو کہیں
ہو جائے جل کے خاک نہ خود یہ مرا وجود
ڈرتا ہوں آہ کا اثر الٹا نہ ہو کہیں
دل لے کے اپنے پاس بلائیں وہ کس لئے
یہ بھی تو سوچتے ہیں تقاضا نہ ہو کہیں
اے شیخ تیری بات کا کیا اعتبار ہو
پردے میں اس عبا کے بھی دنیا نہ ہو کہیں
مدت ہوئی کہ دل کو قرار و سکوں نہیں
پھرتا ہے جیسے اس کا ٹھکانا نہ ہو کہیں
ان کا مریض غم ہے کئی دن سے جاں بہ لب
وہ دل میں سوچتے ہیں بہانہ نہ ہو کہیں
کوئے بتاں میں تیرا گزر ہے جو بار بار
اے دل تو ایسی باتوں سے رسوا نہ ہو کہیں
حافظؔ کی چشم تر پہ نظر چاہئے ضرور
یہ تار اشک دیکھیے دریا نہ ہو کہیں

غزل
ڈرتا ہوں عرض حال سے دھوکا نہ ہو کہیں
محمد ولایت اللہ