درس دیتا ہے شکیبائی کا
وہ ترا زعم مسیحائی کا
طائر دید تماشائی کا
معترف ہے تری گیرائی کا
ہے یہی شرح حدیث آدم
زندگی نام ہے رسوائی کا
نقص پرواز نظر ہے ورنہ
آئنہ ہوں تری یکتائی کا
بن گیا راہنمائے منزل
وہ بھٹکنا ترے سودائی کا
تیری محفل کی فضائے رنگیں
نقش جیسے کوئی چغتائی کا
بن گیا سوز محبت فرحتؔ
اک حریف آتش بینائی کا

غزل
درس دیتا ہے شکیبائی کا
پریم شنکر گوئلہ فرحت