دریا میں ہے سراب عجب ابتلا میں ہوں
میں بھی حسین ہی کی طرح کربلا میں ہوں
ٹکتے نہیں کہیں بھی قدم آرزوؤں کے
پھینکا ہے جب سے تیری زمیں نے خلا میں ہوں
آواز کب سے دیتا تھا حرماں نصیب دل
اب آئی ہے تو غرق نشاط بلا میں ہوں
کیا فرض ہے کہ عیسیٰ و مریم دکھائی دے
مصلوب درد چیخے کہ میں ابتلا میں ہوں
ہر لحظہ انہدام کا ہے خوف مجھ کو ہوشؔ
میں اس دیار شور و شر زلزلہ میں ہوں

غزل
دریا میں ہے سراب عجب ابتلا میں ہوں
ابراہیم ہوش