دریا میں بہت کچھ ہے روانی کے علاوہ
مدت سے میں سیراب ہوں پانی کے علاوہ
اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو
کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ
ایمان شکن پیکر دوشیزۂ عالم
سب کچھ ہے ترے پاس جوانی کے علاوہ
کس عہد گنہ گار نے لی آخری ہچکی
مصروف ہیں سب فاتحہ خوانی کے علاوہ
رنگوں کو برتنے کا ہنر سیکھ چکا ہوں
کیا چاہئے اب تیری نشانی کے علاوہ
دنیا سے تعلق کا سبب کس کو بتاؤں
اب دوست کہاں دشمن جانی کے علاوہ
کیا دوں تجھے جاتی ہوئی جاں باز بہارو
کچھ پاس نہیں برگ خزانی کے علاوہ
ہر شخص مداوا ہے عقیدت سے ہے بے زار
مہلت ہے کسے پیر مغانی کے علاوہ
اشعار کہاں دیتے ہیں منہ دیکھی گواہی
خورشیدؔ کہاں نور معانی کے علاوہ
غزل
دریا میں بہت کچھ ہے روانی کے علاوہ
خورشید اکبر