دریا کو اپنے پاؤں کی کشتی سے پار کر
موجوں کے رقص دیکھ لے خود کو اتار کر
سورج ترے طواف کو نکلے گا رات دن
تو آپ وقت ہے تو نہ لمحے شمار کر
ہابیل تیری ذات میں قابیل ہے مگر
اپنے لہو کو بیچ دے خواہش کو مار کر
اشکوں کے دیپ بک گئے بازار میں تو کیا
عہد گراں میں اپنے پسینے سے پیار کر
اک اور کربلا ہے ترے در کے سامنے
اپنے لہو کو جیت لے بازی کو ہار کر
اک نسل کا وجود لہو کے نمو میں ہے
کچھ دیر خواب دیکھ ذرا انتظار کر

غزل
دریا کو اپنے پاؤں کی کشتی سے پار کر
رشید نثار