دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے
اور ڈوبتے لمحات کی صورت بھی وہی ہے
الفاظ بھی لکھے ہیں وہی نوک قلم نے
اوراق پہ پھیلی ہوئی رنگت بھی وہی ہے
کیوں اس کا سراپا نہ ہوا نقش بہ دیوار
جب میں بھی وہی ہوں مری حیرت بھی وہی ہے
کیوں برف سی پڑتی ہے کہیں شہر دروں پر
جب مژدۂ خورشید میں حدت بھی وہی ہے
کیوں ڈھونڈنے نکلے ہیں نئے غم کا خزینہ
جب دل بھی وہی درد کی دولت بھی وہی ہے
رستے سے مری جنگ بھی جاری ہے ابھی تک
اور پاؤں تلے زخم کی وحشت بھی وہی ہے
تا عمر نگاہوں کے لیے ایک سا منظر
سائے کی طرح سائے کی قیمت بھی وہی ہے

غزل
دریا کی روانی وہی دہشت بھی وہی ہے
یاسمین حمید