دریا جو چڑھا ہے وہ اترنے نہیں دینا
یہ لمحۂ موجود گزرنے نہیں دینا
دنیا ہی نہیں دل کو بھی اس شہر ہوس میں
من مانی کسی حال میں کرنے نہیں دینا
محسوس نہیں ہوگی مسیحا کی ضرورت
یہ زخم ہی ایسا ہے کہ بھرنے نہیں دینا
مشکل ہے مگر کام یہ کرنا ہی پڑے گا
انسان کو انسان سے ڈرنے نہیں دینا
جس خواب میں روپوش ہو جینے کی تمنا
وہ خواب دل آویز بکھرنے نہیں دینا
گر دل کو جلا کر بھی دھواں کرنا پڑے تو
ان پودوں کو کہرے میں ٹھٹھرنے نہیں دینا
غزل
دریا جو چڑھا ہے وہ اترنے نہیں دینا
عبید صدیقی