دریائے آفتاب کی طغیانیت نہ دیکھ
اپنا وجود آپ پس عافیت نہ دیکھ
آنکھیں سیاہ نقطوں سے آگے نہ بڑھ سکیں
آئینۂ خیال کی مصروفیت نہ دیکھ
یہ دیکھ اب سوال بقائے یقین ہے
ٹوٹے ہوئے گمان کی معصومیت نہ دیکھ
آداب ہر شکستہ لبی کا لحاظ رکھ
ہر بات میں نزاکت گفتاریت نہ دیکھ
جمتے ہوئے غبار کا سایہ نہ سر پہ رکھ
اے قوسؔ اڑتی گرد کی دیواریت نہ دیکھ
غزل
دریائے آفتاب کی طغیانیت نہ دیکھ
قوس صدیقی