دریدہ پیرہنوں میں شمار ہم بھی ہیں
بہت دنوں سے انا کے شکار ہم بھی ہیں
فقط تمہیں کو نہیں عشق میں یہ در بدری
تمہاری چاہ میں گرد و غبار ہم بھی ہیں
چڑھی جو دھوپ تو ہوش و حواس کھو بیٹھے
جو کہہ رہے تھے شجر سایہ دار ہم بھی ہیں
بلندیوں کے نشاں تک نہ چھو سکے وہ لوگ
جنہیں گماں تھا ہوا پہ سوار ہم بھی ہیں
جو خستہ حالی میں درویش کا مقدر تھی
اسی قبا کی طرح تار تار ہم بھی ہیں
غزل
دریدہ پیرہنوں میں شمار ہم بھی ہیں
عزم شاکری