دریچوں میں چراغوں کی کمی محسوس ہوتی ہے
یہاں تو پھر ہوا کی برہمی محسوس ہوتی ہے
وہ اب بھی گفتگو کرتا ہے پہلے کی طرح لیکن
ذرا سی برف لہجے میں جمی محسوس ہوتی ہے
ترے وعدے کا سایہ ہو تو صحرا کے سفر میں بھی
جھلستی لو ہوائے شبنمی محسوس ہوتی ہے
تو کیا میں ضبط کے معیار پر پورا نہیں اترا
تو کیا میری ان آنکھوں میں نمی محسوس ہوتی ہے
نہ جانے تیری حالت کیا ہے اس کو دیکھ کر اظہرؔ
مجھے تو دل کی دھڑکن بھی تھمی محسوس ہوتی ہے

غزل
دریچوں میں چراغوں کی کمی محسوس ہوتی ہے
اظہر ادیب