ڈرے ہوئے ہیں سبھی لوگ ابر چھانے سے
وہ آئی بام پہ کیا دھوپ کے بہانے سے
وہ قصہ گو تو بہت جلدباز آدمی تھا
بہت سی لکڑیاں ہم رہ گئے جلانے سے
نظر تو ڈال روانی کی استقامت پر
یہ آبشار ہے کہسار کے گھرانے سے
مسافران محبت مجھے معاف کریں
میں باز آیا انہیں راستہ دکھانے سے
اگر میں آخری بازی نہ کھیلتا اظہرؔ
تو خالی ہاتھ نہ آتا قمار خانے سے
غزل
ڈرے ہوئے ہیں سبھی لوگ ابر چھانے سے
اظہر فراغ