EN हिंदी
درد تو زخم کی پٹی کے ہٹانے سے اٹھا | شیح شیری
dard to zaKHm ki paTTi ke haTane se uTha

غزل

درد تو زخم کی پٹی کے ہٹانے سے اٹھا

ظہیر صدیقی

;

درد تو زخم کی پٹی کے ہٹانے سے اٹھا
اور کچھ اور بھی مرہم کے لگانے سے اٹھا

اس کے الفاظ تسلی نے رلایا مجھ کو
کچھ زیادہ ہی دھواں آگ بجھانے سے اٹھا

عہد ماضی بھی تو بے داغ نہیں کیوں کہیے
پاسداری کا چلن آج زمانے سے اٹھا

وجہ ممکن ہے کوئی اور ہو میں یہ سمجھا
وہ تری بزم میں شاید مرے آنے سے اٹھا

زلف ژولیدہ تو زیبائش رخسار ہوئی
مسئلہ سارا فقط اک ترے شانے سے اٹھا

اپنی پا مردی پہ وہ شخص بھی نازاں ہے ظہیرؔ
جو گرانے سے گرا اور اٹھانے سے اٹھا