درد تیرا مرے سینے سے نکالا نہ گیا
اک مہاجر کو مدینے سے نکالا نہ گیا
میں ترے ساتھ گزارے ہوئے دن جیتا رہا
ایک پل بھی تجھے جینے سے نکالا نہ گیا
ایک موتی بھی نہ ابھرا مری آنکھوں میں کبھی
تیرے بن کچھ بھی دفینے سے نکالا نہ گیا
جب نکالا ہے مجھے دل سے تو روتے کیوں ہو
تم سے کانٹا بھی قرینے سے نکالا نہ گیا
لقمۂ تر نہ ملے گا ترے نازک تن کو
گر مرے خون پسینے سے نکالا نہ گیا
میں نے مانگا تھا بس اک دھوپ کا ٹکڑا عازمؔ
وہ بھی ساون کے مہینے سے نکالا نہ گیا
غزل
درد تیرا مرے سینے سے نکالا نہ گیا
عین الدین عازم