درد شایان شان دل بھی نہیں
اور شب ہجر مستقل بھی نہیں
یوں گلے مل کے فائدہ کیا ہے
زخم اندر سے مندمل بھی نہیں
وصل بھی ہے فراق بھی اس میں
موسم عشق معتدل بھی نہیں
ہر کسی سے یہ میل کیوں کھائے
دل تو پھر دل ہے آب و گل بھی نہیں
سوچ ہے کچھ حقیقتیں کچھ ہیں
خواب تعبیر متصل بھی نہیں
اب بھی جاری ہے رقص مٹی کا
سانس کے تار مضمحل بھی نہیں
ہم جو روٹھے ہیں جان سے ذاکرؔ
ربط ٹوٹا ہے منفصل بھی نہیں
غزل
درد شایان شان دل بھی نہیں
ذاکر خان ذاکر