درد سے جان چراتے ہوئے ڈر لگتا ہے
دل کو ویران بناتے ہوئے ڈر لگتا ہے
چار آنسو سر مژگاں تو کوئی بار نہیں
غم کی توقیر گھٹاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
لوگ تو بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں
اس لیے لب بھی ہلاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
اپنی ہستی سے نہ ہو جاؤں کہیں بیگانہ
آپ سے ربط بڑھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
حسن بے پردا کے جلوے بہت ارزاں ہیں مگر
تہمت دید اٹھاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
عظمت دیر و حرم کا نہ بھرم کھل جائے
سر ترے در پہ جھکاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
جس کے ہر لفظ میں ہوں غم کی کراہیں منشاؔ
ایسا افسانہ سناتے ہوئے ڈر لگتا ہے

غزل
درد سے جان چراتے ہوئے ڈر لگتا ہے
محمد منشاء الرحمن خاں منشاء