درد سے دل نے واسطہ رکھا
وقت بدلے گا حوصلہ رکھا
رو دئیے میرے حال پہ پنچھی
چگنے جب صرف باجرا رکھا
میں پرندہ بنا ہوں جب سے تو
سرحدوں سے نہ واسطہ رکھا
دھوکہ اکثر ملے ہے اپنوں سے
اپنوں سے تھوڑا فاصلہ رکھا
تاکہ نکلیں نہیں مرے آنسو
درد سہنے کا سلسلہ رکھا
مندروں مسجدوں میں ڈھونڈھے کون
اس لیے دل میں اک خدا رکھا
توڑ دیتے جو حوصلہ آتشؔ
ان خیالوں سے فاصلہ رکھا
غزل
درد سے دل نے واسطہ رکھا
آتش اندوری