درد و غم زمانے کے اور ایک جی تنہا
آندھیوں میں جلتی ہے شمع زندگی تنہا
اپنی اپنی راہیں ہیں اپنی اپنی منزل ہے
کارگاہ ہستی میں رہتے ہیں سبھی تنہا
شب سے داغ ہجراں کا واسطہ عجب شے ہے
تیری دل کشی تنہا میری بیکلی تنہا
ہائے اس زمانے میں اہل فن کی بے قدری
موسم زمستاں میں جیسے چاندنی تنہا
جانے دل کی دھڑکن میں کیا فریب ہوتا ہے
تجھ سے بات کرتے ہیں ہم کبھی کبھی تنہا
رہ گزر پہ سجتی ہے اپنی بزم تنہائی
تیری نقش پا تنہا میری بے خودی تنہا
حسن و عشق کی تقدیر اک تضاد باہم ہے
ان کی شام بھی محفل اپنی صبح بھی تنہا
کون کس کی سنتا ہے ایسے دور میں خاورؔ
ہم نے دور چھیڑی ہے غم کی راگنی تنہا
غزل
درد و غم زمانے کے اور ایک جی تنہا
رفیق خاور جسکانی