EN हिंदी
درد لیں گے نہ ہم دوا لیں گے | شیح شیری
dard lenge na hum dawa lenge

غزل

درد لیں گے نہ ہم دوا لیں گے

اشرف نقوی

;

درد لیں گے نہ ہم دوا لیں گے
اپنے حصے کی کچھ سزا لیں گے

بات وہ جو کبھی ہوئی ہی نہیں
ہم اسی بات کا مزا لیں گے

لوگ ویسے بھی آزماتے ہیں
لوگ ایسے بھی آزما لیں گے

کانچ سا دل کہاں پہ رکھو گے
لوگ پتھر اگر اٹھا لیں گے

تم بھی سورج کو سامنے رکھنا
ہم بھی اپنے دیے جلا لیں گے

وہ اگر بن گیا کوئی منظر
ہم اسے آنکھ میں سجا لیں گے

وہ اجالا ہے ہم اجالے کو
دل تاریک میں چھپا لیں گے