درد کی شاخ پہ اک تازہ ثمر آ گیا ہے 
کس کی آمد ہے ضیاؔ کون نظر آ گیا ہے 
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا پیروں نے 
اک سفر ختم پہ ہے اگلا سفر آ گیا ہے 
لہر خود پر ہے پشیمان کہ اس کی زد میں 
ننھے ہاتھوں سے بنا ریت کا گھر آ گیا ہے 
درد بھی سہنا تبسم بھی لبوں پر رکھنا 
مرحبا عشق ہمیں بھی یہ ہنر آ گیا ہے 
آ گیا اس کی بزرگی کا خیال آندھی کو 
وے جو اک راہ میں بوسیدہ شجر آ گیا ہے 
اس کی آنکھوں میں نہیں پہلی سی چاہت لیکن 
یہ بھی کیا کم ہے کہ وے لوٹ کے گھر آ گیا ہے 
اپنی محرومی پہ ہونے ہی لگا تھا مایوس 
دیکھتا کیا ہوں دعاؤں میں اثر آ گیا ہے 
زندگی روک کے اکثر یہی کہتی ہے مجھے 
تجھ کو جانا تھا کدھر اور کدھر آ گیا ہے 
حق پرستوں کے لئے صبر کا لمحہ ہے ضیاؔ 
جھوٹ کے نیزے پہ سچائی کا سر آ گیا ہے
        غزل
درد کی شاخ پہ اک تازہ ثمر آ گیا ہے
ضیا ضمیر

