EN हिंदी
درد کی شاخ پہ اک تازہ ثمر آ گیا ہے | شیح شیری
dard ki shaKH pe ek taza samar aa gaya hai

غزل

درد کی شاخ پہ اک تازہ ثمر آ گیا ہے

ضیا ضمیر

;

درد کی شاخ پہ اک تازہ ثمر آ گیا ہے
کس کی آمد ہے ضیاؔ کون نظر آ گیا ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا پیروں نے
اک سفر ختم پہ ہے اگلا سفر آ گیا ہے

لہر خود پر ہے پشیمان کہ اس کی زد میں
ننھے ہاتھوں سے بنا ریت کا گھر آ گیا ہے

درد بھی سہنا تبسم بھی لبوں پر رکھنا
مرحبا عشق ہمیں بھی یہ ہنر آ گیا ہے

آ گیا اس کی بزرگی کا خیال آندھی کو
وے جو اک راہ میں بوسیدہ شجر آ گیا ہے

اس کی آنکھوں میں نہیں پہلی سی چاہت لیکن
یہ بھی کیا کم ہے کہ وے لوٹ کے گھر آ گیا ہے

اپنی محرومی پہ ہونے ہی لگا تھا مایوس
دیکھتا کیا ہوں دعاؤں میں اثر آ گیا ہے

زندگی روک کے اکثر یہی کہتی ہے مجھے
تجھ کو جانا تھا کدھر اور کدھر آ گیا ہے

حق پرستوں کے لئے صبر کا لمحہ ہے ضیاؔ
جھوٹ کے نیزے پہ سچائی کا سر آ گیا ہے