EN हिंदी
درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ | شیح شیری
dard ki raat guzarti hai magar aahista

غزل

درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ

فاروق نازکی

;

درد کی رات گزرتی ہے مگر آہستہ
وصل کی دھوپ نکھرتی ہے مگر آہستہ

آسماں دور نہیں ابر ذرا نیچے ہے
روشنی یوں بھی بکھرتی ہے مگر آہستہ

تم نے مانگی ہے دعا ٹھیک ہے خاموش رہو
بات پتھر میں اترتی ہے مگر آہستہ

تیری زلفوں سے اسے کیسے جدا کرتا میں
زندگی یوں بھی سنورتی ہے مگر آہستہ