EN हिंदी
درد کی لہر تھی گزر بھی گئی | شیح شیری
dard ki lahar thi guzar bhi gai

غزل

درد کی لہر تھی گزر بھی گئی

یشب تمنا

;

درد کی لہر تھی گزر بھی گئی
اس کے ہم راہ چشم تر بھی گئی

اک تعلق سا تھا سو ختم ہوا
بات تھی ذہن سے اتر بھی گئی

ہم ابھی سوچ ہی میں بیٹھے ہیں
اور وہ آنکھ کام کر بھی گئی

ہجر سے کم نہ تھی وصال کی رت
آئی بے چین سی گزر بھی گئی

ضبط کا حوصلہ بہت تھا مگر
اس نے پوچھا تو آنکھ بھر بھی گئی