درد کی جوت مرے دل میں جگانے والے
روز پیغام نیا دے کے رلانے والے
کیسے لکھ دوں میں ترے نام فسانہ کوئی
بیچ منجدھار میں کشتی کو ڈبانے والے
نہ کوئی عکس نہ زنگار رہا میرے لیے
روح کے شیشہ کو شفاف بنانے والے
کیا نہیں لکھا نگاہوں کو رہین جلوہ
اپنی تحریر سے تقدیر سجانے والے
مثل پروانہ تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا
شمع گمنام سے جذبوں کو جلانے والے
کسی تعبیر کو تکمیل تو پا جانے دے
خواب ہر روز نیا مجھ کو دکھانے والے
عزم محکم لیے میں پیش نظر آئی ہوں
تیر الفاظ کا بے خوف چلانے والے
وقت اب بھی ہے سنبھل جاؤ یہ دنیا ہے فریب
پیار کے ڈھونگ میں لوگوں کو پھنسانے والے
وقت اب دور نہیں ہے کہ اٹھے شور غضب
غم کے سیلاب میں دنیا کو بہانے والے
غزل
درد کی جوت مرے دل میں جگانے والے
اسریٰ رضوی