EN हिंदी
درد کی انتہا نہیں معلوم | شیح شیری
dard ki intiha nahin malum

غزل

درد کی انتہا نہیں معلوم

میکش ناگپوری

;

درد کی انتہا نہیں معلوم
حشر کیوں کر اٹھا نہیں معلوم

کون ہے آشنا نہیں معلوم
کون دے گا دغا نہیں معلوم

وہ تو رخصت ہوئے گلے مل کر
کب ٹلے گی بلا نہیں معلوم

اے مسیحا مرا علاج نہ کر
تجھ کو میری دوا نہیں معلوم

دوستوں کا خلوص یاد رہا
دشمنوں کی ادا نہیں معلوم

پھول مرجھا گئے گلستاں کے
کیسا جھونکا چلا نہیں معلوم

کس کو میں باوفا کہوں میکشؔ
کون ہے باوفا نہیں معلوم