درد خاموش رہا ٹوٹتی آواز رہی
میری ہر شام تری یاد کی ہم راز رہی
شہر میں جب بھی چلے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
تپتے صحرا کی طبیعت بڑی ناساز رہی
آئنے ٹوٹ گئے عکس کی سچائی پر
اور سچائی ہمیشہ کی طرح راز رہی
اک نئے موڑ پہ اس نے بھی مجھے چھوڑ دیا
جس کی آواز میں شامل مری آواز رہی
سنتا رہتا ہوں بزرگوں سے میں اکثر طاہرؔ
وہ سماعت ہی رہی اور نہ وہ آواز رہی
غزل
درد خاموش رہا ٹوٹتی آواز رہی
طاہر فراز