درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی
رات کی راکھ میں سلگی کوئی چنگاری سی
دیکھیے شہر میں کب باد یقیں چلتی ہے
کو بہ کو پھیلی ہے اوہام کی بیماری سی
موت کا وار تو میں سہہ گیا ہنستے ہنستے
زندگی تو ہی کوئی چوٹ لگا کاری سی
کیا سے کیا ہو گئی ماحول کی لو میں جل کر
وہ جو لڑکی نظر آتی تھی بہت پیاری سی
جتنے مفلس ہیں وہ ایک روز تونگر ہوں گے
ایک افواہ سنی ہے مگر اخباری سی

غزل
درد کے سیپ میں پیدا ہوئی بیداری سی
حزیں لدھیانوی