درد کے دائمی رشتوں سے لپٹ جاتے ہیں
عکس روتے ہیں تو شیشوں سے لپٹ جاتے ہیں
ہائے وہ لوگ جنہیں ہم نے بھلا رکھا ہے
یاد آتے ہیں تو سانسوں سے لپٹ جاتے ہیں
کس کے پیروں کے نشاں ہیں کہ مسافر بھی اب
منزلیں بھول کے رستوں سے لپٹ جاتے ہیں
جب وہ روتا ہے تو یک لخت مری پیاس کے ہونٹ
اس کی آنکھوں کے کناروں سے لپٹ جاتے ہیں
جب انہیں نیند پناہیں نہیں دیتی ہیں اسدؔ
خواب پھر جاگتی آنکھوں سے لپٹ جاتے ہیں
غزل
درد کے دائمی رشتوں سے لپٹ جاتے ہیں
سبحان اسد