EN हिंदी
درد کے دائمی رشتوں سے لپٹ جاتے ہیں | شیح شیری
dard ke daimi rishton se lipaT jate hain

غزل

درد کے دائمی رشتوں سے لپٹ جاتے ہیں

سبحان اسد

;

درد کے دائمی رشتوں سے لپٹ جاتے ہیں
عکس روتے ہیں تو شیشوں سے لپٹ جاتے ہیں

ہائے وہ لوگ جنہیں ہم نے بھلا رکھا ہے
یاد آتے ہیں تو سانسوں سے لپٹ جاتے ہیں

کس کے پیروں کے نشاں ہیں کہ مسافر بھی اب
منزلیں بھول کے رستوں سے لپٹ جاتے ہیں

جب وہ روتا ہے تو یک لخت مری پیاس کے ہونٹ
اس کی آنکھوں کے کناروں سے لپٹ جاتے ہیں

جب انہیں نیند پناہیں نہیں دیتی ہیں اسدؔ
خواب پھر جاگتی آنکھوں سے لپٹ جاتے ہیں