درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
غم کی میعاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہجر میں آہ و بکا رسم کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے
یوں تو تم روشنیٔ قلب و نظر ہو لیکن
آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے
دم گھٹا جاتا ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے
میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چھوڑ آئے ہو سر شام اسے کیوں ناصرؔ
اسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے
غزل
درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
ناصر کاظمی