EN हिंदी
درد کا شہر کہیں کرب کا صحرا ہوگا | شیح شیری
dard ka shahr kahin karb ka sahra hoga

غزل

درد کا شہر کہیں کرب کا صحرا ہوگا

امیر قزلباش

;

درد کا شہر کہیں کرب کا صحرا ہوگا
لوگ واقف تھے کوئی گھر سے نہ نکلا ہوگا

وہ جو اک شخص بضد ہے کہ بھلا دو مجھ کو
بھول جاؤں تو اسی شخص کو صدمہ ہوگا

آنکھ کھلتے ہی بچھڑ جائے گا ہر منظر شب
چاند پھر صبح کے مقتل میں اکیلا ہوگا

جن اجالوں کی طرف دوڑ رہی ہے دنیا
ان اجالوں میں قیامت کا اندھیرا ہوگا

ایک امید ہر اک در پہ لیے جاتی ہے
یہ مرا شہر تھا کوئی تو شناسا ہوگا