درد کا شہر کہیں کرب کا صحرا ہوگا
لوگ واقف تھے کوئی گھر سے نہ نکلا ہوگا
وہ جو اک شخص بضد ہے کہ بھلا دو مجھ کو
بھول جاؤں تو اسی شخص کو صدمہ ہوگا
آنکھ کھلتے ہی بچھڑ جائے گا ہر منظر شب
چاند پھر صبح کے مقتل میں اکیلا ہوگا
جن اجالوں کی طرف دوڑ رہی ہے دنیا
ان اجالوں میں قیامت کا اندھیرا ہوگا
ایک امید ہر اک در پہ لیے جاتی ہے
یہ مرا شہر تھا کوئی تو شناسا ہوگا
غزل
درد کا شہر کہیں کرب کا صحرا ہوگا
امیر قزلباش