درد کا سمندر ہے صرف پار ہونے تک
عشق کی حقیقت کے آشکار ہونے تک
روز و شب کی گردش میں محو رقص رہتے ہیں
خاک کے بگولے ہیں بس غبار ہونے تک
خواہشوں کی خوشبو میں خواب خواب پھرتے تھے
پالکی میں تاروں کی ہم سوار ہونے تک
قربتوں کے جنگل میں دیر کتنی لگتی ہے
پیرہن محبت کا تار تار ہونے تک
سوچ کی حویلی میں اک سکوت طاری تھا
منتظر نگاہوں کے بیقرار ہونے تک
آتش غم دل میں خاک ہو گئے ہم تو
رشتۂ محبت کے استوار ہونے تک
زندگی کے لہجے کو ایک عمر لگتی ہے
دھوپ کی تمازت سے سایہ دار ہونے تک
اجنبی مسافر تھے ہم سفر رہے پھر بھی
اک گریز حائل تھا اعتبار ہونے تک
پانیوں کے سینے پر آج بھی سفینے ہیں
سرپھری ہواؤں کے سازگار ہونے تک
کتنی موجیں ڈوبیں گی ساحلوں کے دامن میں
قربتوں کی کوشش میں راز دار ہونے تک
تھا کمال کوزہ گر ڈھالتا رہا مجھ کو
ہاں فرحؔ لگے برسوں شاہ کار ہونے تک
غزل
درد کا سمندر ہے صرف پار ہونے تک
فرح اقبال