EN हिंदी
درد کا جب تک مزا حاصل نہ تھا | شیح شیری
dard ka jab tak maza hasil na tha

غزل

درد کا جب تک مزا حاصل نہ تھا

ارم لکھنوی

;

درد کا جب تک مزا حاصل نہ تھا
دل کہے جانے کے قابل دل نہ تھا

ہائے ان مجبوریوں کو کیا کروں
میں بھی خود فریاد کے قابل نہ تھا

بھیک رکھ لو جو دعائیں دے گیا
وہ فقیر عشق تھا سائل نہ تھا

او لٹانے والے گلہائے کرم
سب کا دل تھا کیا ہمارا دل نہ تھا

جاں بری مشکل بھی ہم کو اے ارمؔ
وہ بچا لیتے تو کچھ مشکل نہ تھا