درد جب دل میں سما جاتا ہے
لذت زیست بڑھا جاتا ہے
خون معصوم سے دیواروں پر
غم کا افسانہ لکھا جاتا ہے
اب تو ہر جذبۂ بیباک کا بھی
حوصلہ پست ہوا جاتا ہے
جانے کیوں مجھ کو حیا آتی ہے
وار جب ان کا خطا جاتا ہے
غم ایام کا ہر اک منظر
شدت درد بڑھا جاتا ہے
رفتہ رفتہ دل دیوانہ بھی
محرم راز ہوا جاتا ہے
بے گناہوں کا بھی اب تو فارغؔ
جینا دشوار ہوا جاتا ہے

غزل
درد جب دل میں سما جاتا ہے
لکشمی نارائن فارغ