EN हिंदी
درد غزل میں ڈھلنے سے کتراتا ہے | شیح شیری
dard ghazal mein Dhalne se katraata hai

غزل

درد غزل میں ڈھلنے سے کتراتا ہے

ریاض مجید

;

درد غزل میں ڈھلنے سے کتراتا ہے
خالی کاغذ میری ہنسی اڑاتا ہے

کس چاہت سے قلم پکڑ کر بیٹھے تھے
اب تو ایک بھی لفظ نہیں بن آتا ہے

آڑی ترچھی لکیروں سے کب بات بنی
شوق اندھا ہے ہوا پہ نقش بناتا ہے

کس کی صدائیں میرا تعاقب کرتی ہیں
دیس نکالے شخص کو کون بلاتا ہے

یادیں ٹیسیں سی بن کر رہ جاتی ہیں
گزرا موسم پھر کب لوٹ کے آتا ہے

کس کا رستہ دیکھ رہے ہیں گھر کے کواڑ
سونا سونا آنگن کسے بلاتا ہے

کن کن صحراؤں کی خاک اڑانی پڑی
دل بھی کیسے کیسے ناچ بچاتا ہے

جھوٹی سچی جو جی چاہے کہتے جاؤ
کون کسی کے دل میں اترا جاتا ہے

وقت کی بات ہے پیارے چاہے مان نہ مان
میٹھا کڑوا سب سننا پڑ جاتا ہے

میرے آگے بھاگ رہے ہیں چاند ریاضؔ
میرے پیچھے میرا سایہ آتا ہے