EN हिंदी
درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا | شیح شیری
dard-e-wirasat pa lene se nam nahin chal sakta

غزل

درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا

انجم سلیمی

;

درد وراثت پا لینے سے نام نہیں چل سکتا
عشق میں بابا ایک جنم سے کام نہیں چل سکتا

بہت دنوں سے مجھ میں ہے کیفیت رونے والی
درد فراواں سینے میں کہرام نہیں چل سکتا

تہمت عشق مناسب ہے اور ہم پر جچتی ہے
ہم ایسوں پر اور کوئی الزام نہیں چل سکتا

چم چم کرتے حسن کی تم جو اشرفیاں لائے ہو
اس میزان میں یہ دنیاوی دام نہیں چل سکتا

آنکھ جھپکنے کی مہلت بھی کم ملتی ہے انجمؔ
فقر میں کوئی تن آساں دو گام نہیں چل سکتا